EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی

جگر مراد آبادی




ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی




تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی




تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے

جگر مراد آبادی




ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی




اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

جگر مراد آبادی




اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی
وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے

جگر مراد آبادی




وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

جگر مراد آبادی




وہ چیز کہتے ہیں فردوس گم شدہ جس کو
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پائی جاتی ہے

جگر مراد آبادی