ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی
جگر مراد آبادی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا
جگر مراد آبادی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
جگر مراد آبادی
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
جگر مراد آبادی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
جگر مراد آبادی
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
جگر مراد آبادی
تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے
جگر مراد آبادی
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
جگر مراد آبادی