EN हिंदी
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
tabiat in dinon begana-e-gham hoti jati hai

غزل

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے

جگر مراد آبادی

;

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملہ و اسباب ماتم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسن دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی مے خانہ و صہبا وہی ساغر وہی شیشہ
مگر آواز نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہیں شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی شورش ہے لیکن جیسے موج تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے