EN हिंदी
نقاب حسن دوعالم اٹھائی جاتی ہے | شیح شیری
naqab-e-husn-e-do-alam uThai jati hai

غزل

نقاب حسن دوعالم اٹھائی جاتی ہے

جگر مراد آبادی

;

نقاب حسن دوعالم اٹھائی جاتی ہے
مجھی کو میری تجلی دکھائی جاتی ہے

قدم قدم مری ہمت بڑھائی جاتی ہے
نفس نفس تری آہٹ سی پائی جاتی ہے

وہ اک نظر جو بمشکل اٹھائی جاتی ہے
وہی نظر رگ و پے میں سمائی جاتی ہے

سکوں ہے موت یہاں ذوق جستجو کے لیے
یہ تشنگی وہ نہیں جو بجھائی جاتی ہے

خدا وہ درد محبت ہر ایک کو بخشے
کہ جس میں روح کی تسکین بھی پائی جاتی ہے

وہ مے کدہ ہے تری انجمن خدا رکھے
جہاں خیال سے پہلے پلائی جاتی ہے

ترے حضور یہ کیا واردات قلب ہے آج
کہ جیسے چاند پہ بدلی سی چھائی جاتی ہے

تجھے خبر ہو تو اتنی نہ فرصت غم دے
کہ تیری یاد بھی اکثر ستائی جاتی ہے

وہ چیز کہتے ہیں فردوس گم شدہ جس کو
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پائی جاتی ہے

قریب منزل آخر ہے الفراق جگرؔ
سفر تمام ہوا نیند آئی جاتی ہے