دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی
دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں
ایک رات آئی ایک رات گئی
تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی
ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل
رائیگاں سعئ التفات گئی
مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی
اب جنوں آپ ہے گریباں گیر
اب وہ رسم تکلفات گئی
ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی
جب سے وہ طرز التفات گئی
ترک الفت بہت بجا ناصح
لیکن اس تک اگر یہ بات گئی
ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے
پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی
ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی
جلوۂ ذات اے معاذ اللہ
تاب آئینۂ صفات گئی
نہیں ملتا مزاج دل ہم سے
غالباً دور تک یہ بات گئی
قید ہستی سے کب نجات جگرؔ
موت آئی اگر حیات گئی
غزل
دل گیا رونق حیات گئی
جگر مراد آبادی