EN हिंदी
ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی | شیح شیری
tere jamal-e-haqiqat ki tab hi na hui

غزل

ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی

;

ترے جمال حقیقت کی تاب ہی نہ ہوئی
ہزار بار نگہ کی مگر کبھی نہ ہوئی

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

کہاں وہ شوخ ملاقات خود سے بھی نہ ہوئی
بس ایک بار ہوئی اور پھر کبھی نہ ہوئی

وہ ہم ہیں اہل محبت کہ جان سے دل سے
بہت بخار اٹھے آنکھ شبنمی نہ ہوئی

ٹھہر ٹھہر دل بے تاب پیار تو کر لوں
اب اس کے بعد ملاقات پھر ہوئی نہ ہوئی

مرے خیال سے بھی آہ مجھ کو بعد رہا
ہزار طرح سے چاہا برابری نہ ہوئی

ہم اپنی رندی و طاعت پہ خاک ناز کریں
قبول حضرت سلطاں ہوئی ہوئی نہ ہوئی

کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ ہوئی ہوئی نہ ہوئی

تمام حرف و حکایت تمام دیدہ و دل
اس اہتمام پہ بھی شرح عاشقی نہ ہوئی

فسردہ خاطرئ عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی

تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی

کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا
شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی

صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی

وہ کچھ سہی نہ سہی پھر بھی زاہد ناداں
بڑے بڑوں سے محبت میں کافری نہ ہوئی

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی

گئے تھے ہم بھی جگرؔ جلوہ گاہ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی