موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جگر مراد آبادی
میرے درد میں یہ خلش کہاں میرے سوز میں یہ تپش کہاں
کسی اور ہی کی پکار ہے مری زندگی کی صدا نہیں
جگر مراد آبادی
میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا
جگر مراد آبادی
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
جگر مراد آبادی
مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست
خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں
جگر مراد آبادی
مری روداد غم وہ سن رہے ہیں
تبسم سا لبوں پر آ رہا ہے
جگر مراد آبادی
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
جگر مراد آبادی
محبت میں ہم تو جیے ہیں جییں گے
وہ ہوں گے کوئی اور مر جانے والے
جگر مراد آبادی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر مراد آبادی