EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا

جگر مراد آبادی




میرے درد میں یہ خلش کہاں میرے سوز میں یہ تپش کہاں
کسی اور ہی کی پکار ہے مری زندگی کی صدا نہیں

جگر مراد آبادی




میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا

جگر مراد آبادی




میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے

جگر مراد آبادی




مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست
خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں

جگر مراد آبادی




مری روداد غم وہ سن رہے ہیں
تبسم سا لبوں پر آ رہا ہے

جگر مراد آبادی




مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی




محبت میں ہم تو جیے ہیں جییں گے
وہ ہوں گے کوئی اور مر جانے والے

جگر مراد آبادی




محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

جگر مراد آبادی