اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
جو تیرے عارض و گیسو کے درمیاں گزرے
کبھی کبھی وہی لمحے بلائے جاں گزرے
مجھے یہ وہم رہا مدتوں کہ جرأت شوق
کہیں نہ خاطر معصوم پر گراں گزرے
ہر اک مقام محبت بہت ہی دل کش تھا
مگر ہم اہل محبت کشاں کشاں گزرے
جنوں کے سخت مراحل بھی تیری یاد کے ساتھ
حسیں حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے
مری نظر سے تری جستجو کے صدقے میں
یہ اک جہاں ہی نہیں سینکڑوں جہاں گزرے
ہجوم جلوہ میں پرواز شوق کیا کہنا
کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے
خطا معاف زمانے سے بد گماں ہو کر
تری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے
مجھے تھا شکوۂ ہجراں کہ یہ ہوا محسوس
مرے قریب سے ہو کر وہ نا گہاں گزرے
رہ وفا میں اک ایسا مقام بھی آیا
کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بد گماں گزرے
خلوص جس میں ہو شامل وہ دور عشق و ہوس
نہ رائیگاں کبھی گزرا نہ رائیگاں گزرے
اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی
وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے
بہت حسین مناظر بھی حسن فطرت کے
نہ جانے آج طبیعت پہ کیوں گراں گزرے
وہ جن کے سائے سے بھی بجلیاں لرزتی تھیں
مری نظر سے کچھ ایسے بھی آشیاں گزرے
مرا تو فرض چمن بندی جہاں ہے فقط
مری بلا سے بہار آئے یا خزاں گزرے
کہاں کا حسن کہ خود عشق کو خبر نہ ہوئی
رہ طلب میں کچھ ایسے بھی امتحاں گزرے
بھری بہار میں تاراجی چمن مت پوچھ
خدا کرے نہ پھر آنکھوں سے وہ سماں گزرے
کوئی نہ دیکھ سکا جن کو وہ دلوں کے سوا
معاملات کچھ ایسے بھی درمیاں گزرے
کبھی کبھی تو اسی ایک مشت خاک کے گرد
طواف کرتے ہوئے ہفت آسماں گزرے
بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
ابھی سے تجھ کو بہت ناگوار ہیں ہمدم
وہ حادثات جو اب تک رواں دواں گزرے
جنہیں کہ دیدۂ شاعر ہی دیکھ سکتا ہے
وہ انقلاب ترے سامنے کہاں گزرے
بہت عزیز ہے مجھ کو انہیں کیا یاد جگرؔ
وہ حادثات محبت جو نا گہاں گزرے
غزل
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
جگر مراد آبادی