EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

جن کے لیے مر بھی گئے ہم
وہ چل کر دو گام نہ آئے

جگر مراد آبادی




جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا
اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا

جگر مراد آبادی




جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

جگر مراد آبادی




جو نہ سمجھے ناصحو پھر اس کو سمجھاتے ہو کیوں
ساتھ دیوانے کے دیوانے بنے جاتے ہو کیوں

why do you seek to moralize to those who do not comprehend
why with these lunatics do you become a lunatic my friend?

جگر مراد آبادی




جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

جگر مراد آبادی




جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے

جگر مراد آبادی




جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں

جگر مراد آبادی




کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

جگر مراد آبادی




کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

جگر مراد آبادی