جن کے لیے مر بھی گئے ہم
وہ چل کر دو گام نہ آئے
جگر مراد آبادی
جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا
اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا
جگر مراد آبادی
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
جگر مراد آبادی
جو نہ سمجھے ناصحو پھر اس کو سمجھاتے ہو کیوں
ساتھ دیوانے کے دیوانے بنے جاتے ہو کیوں
why do you seek to moralize to those who do not comprehend
why with these lunatics do you become a lunatic my friend?
جگر مراد آبادی
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
جگر مراد آبادی
جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے
جگر مراد آبادی
جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں
جگر مراد آبادی
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر
جگر مراد آبادی
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
جگر مراد آبادی