وہ ہزار دشمن جاں سہی مجھے پھر بھی غیر عزیز ہے
جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں
جگر مراد آبادی
وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا
وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
جگر مراد آبادی
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
جگر مراد آبادی
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جگر مراد آبادی
یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
جگر مراد آبادی
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
جگر مراد آبادی
یہ راز سن رہے ہیں اک موج دلنشیں سے
ڈوبے ہیں ہم جہاں پر ابھریں گے پھر وہیں سے
جگر مراد آبادی
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
جگر مراد آبادی