EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

وہ ہزار دشمن جاں سہی مجھے پھر بھی غیر عزیز ہے
جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں

جگر مراد آبادی




وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا
وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے

جگر مراد آبادی




وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا

جگر مراد آبادی




یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

جگر مراد آبادی




یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر مراد آبادی




یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

جگر مراد آبادی




یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے

جگر مراد آبادی




یہ راز سن رہے ہیں اک موج دلنشیں سے
ڈوبے ہیں ہم جہاں پر ابھریں گے پھر وہیں سے

جگر مراد آبادی




یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے

جگر مراد آبادی