EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی

جگر مراد آبادی




سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی

جگر مراد آبادی




صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے

جگر مراد آبادی




ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی




تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی

جگر مراد آبادی




تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی




تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے

جگر مراد آبادی




سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں

جگر مراد آبادی




صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی