دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جگر مراد آبادی
دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو
بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو
جگر مراد آبادی
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
جگر مراد آبادی
دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی
کبھی ان سے جب سامنا ہو گیا
جگر مراد آبادی
درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
the heart is accustomed to sorrow and pain
in lasting comfort now I can remain
جگر مراد آبادی
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
چشم پر نم زلف آشفتہ نگاہیں بے قرار
اس پشیمانی کے صدقہ میں پشیماں ہو گیا
جگر مراد آبادی
بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا
بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا
جگر مراد آبادی