کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں
جگر مراد آبادی
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
where does lightening strike, priest, let us look
I will raise my glass you raise your holy book
جگر مراد آبادی
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن
جگر مراد آبادی
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
she was in my embrace
I myself was lost as long she stayed with me
جگر مراد آبادی
کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر
اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا
جگر مراد آبادی
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
جگر مراد آبادی
کیا بتاؤں کس قدر زنجیر پا ثابت ہوئے
چند تنکے جن کو اپنا آشیاں سمجھا تھا میں
جگر مراد آبادی
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
جگر مراد آبادی
کیا خبر تھی خلش ناز نہ جینے دے گی
یہ تری پیار کی آواز نہ جینے دے گی
جگر مراد آبادی