EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی




دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا

جگر مراد آبادی




دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو
بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

جگر مراد آبادی




دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی

جگر مراد آبادی




دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی
کبھی ان سے جب سامنا ہو گیا

جگر مراد آبادی




درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے

the heart is accustomed to sorrow and pain
in lasting comfort now I can remain

جگر مراد آبادی




داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی

جگر مراد آبادی




چشم پر نم زلف آشفتہ نگاہیں بے قرار
اس پشیمانی کے صدقہ میں پشیماں ہو گیا

جگر مراد آبادی




بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا
بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا

جگر مراد آبادی