آپ کے دشمن رہیں وقف خلش صرف تپش
آپ کیوں غم خواری بیمار ہجراں کیجیے
جگر مراد آبادی
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
جگر مراد آبادی
آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
جگر مراد آبادی
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
جگر مراد آبادی
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
People meet each other, fairly frequently
But, meeting of hearts, seldom does one see
جگر مراد آبادی
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے
جگر مراد آبادی
آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
جگر مراد آبادی
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
جگر مراد آبادی