وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا
کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا
بشیر بدر
وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی
بشیر بدر
وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے
بشیر بدر
وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو
بشیر بدر
اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے
بشیر بدر
اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے
کوئی پھول لاکھ قریب ہو کبھی میں نے اس کو چھوا نہیں
بشیر بدر
تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی
بشیر بدر
سناتے ہیں مجھے خوابوں کی داستاں اکثر
کہانیوں کے پر اسرار لب تمہاری طرح
بشیر بدر
تہذیب کے لباس اتر جائیں گے جناب
ڈالر میں یوں نچائے گی اکیسویں صدی
بشیر بدر