EN हिंदी
اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے | شیح شیری
agar yaqin nahin aata to aazmae mujhe

غزل

اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے

بشیر بدر

;

اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے
وہ آئنہ ہے تو پھر آئنہ دکھائے مجھے

عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے

میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی
بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے

بہت دنوں سے میں ان پتھروں میں پتھر ہوں
کوئی تو آئے ذرا دیر کو رلائے مجھے

میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو
تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے