EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا

بشیر بدر




شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

بشیر بدر




شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے

بشیر بدر




سناتے ہیں مجھے خوابوں کی داستاں اکثر
کہانیوں کے پر اسرار لب تمہاری طرح

بشیر بدر




تہذیب کے لباس اتر جائیں گے جناب
ڈالر میں یوں نچائے گی اکیسویں صدی

بشیر بدر




تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی

بشیر بدر




تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر

بشیر بدر




انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم سفر کہاں ہے

بشیر بدر




اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں
یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں

بشیر بدر