اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے
افتخار عارف
عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں
افتخار عارف
عجیب ہی تھا مرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
افتخار عارف
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
افتخار عارف
عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی
افتخار عارف
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں
افتخار عارف
بس ایک خواب کی صورت کہیں ہے گھر میرا
مکاں کے ہوتے ہوئے لا مکاں کے ہوتے ہوئے
افتخار عارف
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں
افتخار عارف
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
افتخار عارف