ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
مبادا مندمل زخموں کی صورت بھول ہی جائیں
ابھی کچھ دن یہ گھر برباد رکھنا چاہتے ہیں
بہت رونق تھی ان کے دم قدم سے شہر جاں میں
وہی رونق ہم ان کے بعد رکھنا چاہتے ہیں
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں
سروں میں ایک ہی سودا کہ لو دینے لگے خاک
امیدیں حسب استعداد رکھنا چاہتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو حرف دعا مفہوم کھو دے
دعا کو صورت فریاد رکھنا چاہتے ہیں
قلم آلودۂ نان و نمک رہتا ہے پھر بھی
جہاں تک ہو سکے آزاد رکھنا چاہتے ہیں
غزل
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
افتخار عارف