ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دکھ مرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی
ابھی بلند رکھو یارو آخری مشعل
ادھر تو پہلی کرن کیا سحر کی آئے گی
کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانی
صدا نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی
غزل
ادھر کی آئے گی اک رو ادھر کی آئے گی
راجیندر منچندا بانی