EN हिंदी
لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں | شیح شیری
log yak-rangi-e-wahshat se bhi uktae hain

غزل

لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں

راہی معصوم رضا

;

لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں
ہم بیاباں سے یہی ایک خبر لائے ہیں

پیاس بنیاد ہے جینے کی بجھا لیں کیسے
ہم نے یہ خواب نہ دیکھے ہیں نہ دکھلائے ہیں

ہم تھکے ہارے ہیں اے عزم سفر ہم کو سنبھال
کہیں سایہ جو نظر آیا ہے گھبرائے ہیں

زندگی ڈھونڈھ لے تو بھی کسی دیوانے کو
اس کے گیسو تو مرے پیار نے سلجھائے ہیں

یاد جس چیز کو کہتے ہیں وہ پرچھائیں ہے
اور سائے بھی کسی شخص کے ہاتھ آئے ہیں

ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

اس بیابان در و بام میں کیا رکھا ہے
ہم ہی دیوانے ہیں صحرا سے چلے آئے ہیں