EN हिंदी
ویزا شیاری | شیح شیری

ویزا

62 شیر

او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا

حسن بریلوی




خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے
وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے

حسن نعیم




کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا

حسرتؔ موہانی




وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

حسرتؔ موہانی




سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی

جاں نثاراختر




اک رات دل جلوں کو یہ عیش وصال دے
پھر چاہے آسمان جہنم میں ڈال دے

just one night give these deprived the joy of company
thereafter if you wish merge paradise and purgatory

جلالؔ لکھنوی




ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے

جلال الدین اکبر