EN हिंदी
ویزا شیاری | شیح شیری

ویزا

62 شیر

وصال یار کی خواہش میں اکثر
چراغ شام سے پہلے جلا ہوں

عالم تاب تشنہ




دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے

امیر مینائی




پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا

امیر مینائی




رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا

امیر مینائی




وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

امیر مینائی




وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

امیر مینائی




وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہیں کی زباں کے ہیں

امیر مینائی