سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
ان سے یہی کہہ آئیں کہ اب ہم نہ ملیں گے
آخر کوئی تقریب ملاقات بنے گی
اے ناوک غم دل میں ہے اک بوند لہو کی
کچھ اور تو کیا ہم سے مدارات بنے گی
یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں
اے عشق ہماری نہ ترے سات بنے گی
یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے
جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی
غزل
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
جاں نثاراختر