EN हिंदी
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی | شیح شیری
sau chand bhi chamkenge to kya baat banegi

غزل

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

جاں نثاراختر

;

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی

ان سے یہی کہہ آئیں کہ اب ہم نہ ملیں گے
آخر کوئی تقریب ملاقات بنے گی

اے ناوک غم دل میں ہے اک بوند لہو کی
کچھ اور تو کیا ہم سے مدارات بنے گی

یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں
اے عشق ہماری نہ ترے سات بنے گی

یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے
جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی