آئینہ تمہارے نقش پا کا
خورشید کو دے سبق جلا کا
او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
جب آنکھ کھلی تو بے خودوں سے
پردہ تھا جمال خود نما کا
دل اور وہ بت زہے مقدر
ظلم اور یہ دل غضب خدا کا
جا بیٹھے ہیں مجھ سے دور اٹھ کر
کیا پاس کیا ہے التجا کا
بولے وہ حسنؔ کا خون مل کر
کیا شوخ ہے رنگ اس حنا کا
غزل
آئینہ تمہارے نقش پا کا
حسن بریلوی