EN हिंदी
ویزا شیاری | شیح شیری

ویزا

62 شیر

کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

فراق گورکھپوری




ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

فراق گورکھپوری




حکایت عشق سے بھی دل کا علاج ممکن نہیں کہ اب بھی
فراق کی تلخیاں وہی ہیں وصال کی آرزو وہی ہے

غلام حسین ساجد




عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے
وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں

غلام حسین ساجد




شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

حیدر علی آتش




وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے
جسم و جاں سب اس کے حوالے کر رکھے تھے

حیدر قریشی




دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے

حسن عباس رضا