EN हिंदी
خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے | شیح شیری
KHair se dil ko teri yaad se kuchh kaam to hai

غزل

خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے

حسن نعیم

;

خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے
وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے

نور افلاک سے روشن ہو شب غم کہ نہ ہو
چاند تاروں سے مرا نامہ و پیغام تو ہے

کم نہیں اے دل بیتاب متاع امید
دست مے خوار میں خالی ہی سہی جام تو ہے

بام خورشید سے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح
خیمۂ شب میں بہت دیر سے کہرام تو ہے

جو بھی الزام مرے عشق پہ آیا ہو نعیمؔ
ان سے وابستہ کسی طور مرا نام تو ہے