تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
آغا شاعر قزلباش
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
احمد فراز
وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب
احمد حسین مائل
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
احمد مشتاق
ملنے کی یہ کون گھڑی تھی
باہر ہجر کی رات کھڑی تھی
احمد مشتاق
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا رات بھر مصیبت ہے
whether in blissful union or in separation
staying up all night, is a botheration
اکبر الہ آبادی
آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا
اختر شیرانی