EN हिंदी
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں | شیح شیری
wasl ki banti hain in baaton se tadbiren kahin

غزل

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

حسرتؔ موہانی

;

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں

مٹ رہی ہیں دل سے یادیں روزگار عیش کی
اب نظر کاہے کو آئیں گی یہ تصویریں کہیں

التفات یار تھا اک خواب آغاز وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں

تیری بے صبری ہے حسرتؔ خامکاری کی دلیل
گریۂ عشاق میں ہوتی ہیں تاثیریں کہیں