EN हिंदी
شراب شیاری | شیح شیری

شراب

82 شیر

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

فانی بدایونی




اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

the formality of you and I should in wine be drowned
meaning that these barriers of sobriety be downed

فرحت شہزاد




آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے

we came to the tavern all gay and frolicsome
now having drunk the wine, somber have become

فراق گورکھپوری




جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر
رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی




رندوں کو وعظ پند نہ کر فصل گل میں شیخ
ایسا نہ ہو شراب اڑے خانقاہ میں

حبیب موسوی




مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل

حفیظ جونپوری




پی کر دو گھونٹ دیکھ زاہد
کیا تجھ سے کہوں شراب کیا ہے

حفیظ جونپوری