ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبح محشر ہم رکاب آنے کو ہے
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
ہائے کیسی کشمکش ہے یاس بھی ہے آس بھی
دم نکل جانے کو ہے خط کا جواب آنے کو ہے
خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہم راہ ہیں
کس ڈھٹائی سے مرے خط کا جواب آنے کو ہے
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
بھر کے ساقی جام مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے
خانۂ تصویر میں آنے کو ہے تصویر یار
آئنے میں قد آدم آفتاب آنے کو ہے
پھر حنائی ہونے والے ہیں مرے قاتل کے ہاتھ
پھر زبان تیغ پر رنگ شہاب آنے کو ہے
گدگداتا ہے تصور چٹکیاں لیتا ہے درد
کیا کسی بے خواب کی آنکھوں میں خواب آنے کو ہے
دیکھیے موت آئے فانیؔ یا کوئی فتنہ اٹھے
میرے قابو میں دل بے صبر و تاب آنے کو ہے
غزل
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
فانی بدایونی