EN हिंदी
شراب شیاری | شیح شیری

شراب

82 شیر

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

منور رانا




مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

مضطر خیرآبادی




سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

نظیر اکبرآبادی




کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی
آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ندا فاضلی




ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

نوح ناروی




جس مصلے پہ چھڑکئے نہ شراب
اپنے آئین میں وہ پاک نہیں

قائم چاندپوری




مے پی جو چاہے آتش دوزخ سے تو نجات
جلتا نہیں وہ عضو جو تر ہو شراب میں

قائم چاندپوری