اس کی صورت کا تصور دل میں جب لاتے ہیں ہم
خود بہ خود اپنے سے ہمدم آپ گھبراتے ہیں ہم
ہوش گر رہتا ہو تجھ کو ہم سے پوشیدہ نہ رکھ
جب وہ یاں آتا ہے اے دل تب کہاں جاتے ہیں ہم
بیٹھے بیٹھے کیوں یکایک ہائے دل کھویا گیا
ہمدم اس کا کچھ سبب ڈھونڈے نہیں پاتے ہیں ہم
خود بہ خود کل شب کو وہ بولے اٹھا منہ سے نقاب
جو نہ دیکھا ہو کسی نے مجھ کو، دکھلاتے ہیں ہم
بے سبب ہو کر خفا جب کچھ سناتا ہے وہ شوخ
جی ہی جی میں اپنے اوپر ہائے جھنجھلاتے ہیں ہم
شام کو ساقی کبھی آتا ہے گر تیرا خیال
صبح تک بھی ہوش میں اپنے نہیں آتے ہیں ہم
ہم نے غم کیا خاک کھایا غم نے ہم کو کھا لیا
لوگ اے ہمدم سمجھتے ہیں کہ غم کھاتے ہیں ہم
جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر
رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم
جو کلام عشق یہ ہرگز سمجھتا ہی نہیں
دل کو سو سو طرح غمگیںؔ ہائے سمجھاتے ہیں ہم
غزل
اس کی صورت کا تصور دل میں جب لاتے ہیں ہم
غمگین دہلوی