EN हिंदी
شراب شیاری | شیح شیری

شراب

82 شیر

منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے

بیخود دہلوی




تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ
کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے

بیخود دہلوی




لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

you've never drunk O hapless priest
The joys of wine how will you see

داغؔ دہلوی




پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب
یہ مزا پاکباز کیا جانیں

داغؔ دہلوی




واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جام شراب ہو

داغؔ دہلوی




اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

the tavern does not even give that much wine to me
that I was wont to waste in the goblet casually

دواکر راہی




آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فیض احمد فیض