EN हिंदी
شراب شیاری | شیح شیری

شراب

82 شیر

زاہد کو رٹ لگی ہے شراب طہور کی
آیا ہے میکدے میں تو سوجھی ہے دور کی

حفیظ جونپوری




زاہد شراب ناب ہو یا بادۂ طہور
پینے ہی پر جب آئے حرام و حلال کیا

حفیظ جونپوری




فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز مصلٰی اٹھائیے

حیدر علی آتش




مے نہ ہو بو ہی سہی کچھ تو ہو رندوں کے لئے
اسی حیلہ سے بجھے گی ہوس جام شراب

حکیم محمد اجمل خاں شیدا




مے کشی میں رکھتے ہیں ہم مشرب درد شراب
جام مے چلتا جہاں دیکھا وہاں پر جم گئے

حسرتؔ عظیم آبادی




شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

جون ایلیا




ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام
زندگی کی اداسیوں کو سلام

جاوید کمال رامپوری