EN हिंदी
شراب شیاری | شیح شیری

شراب

82 شیر

ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی




کسی کی بزم کے حالات نے سمجھا دیا مجھ کو
کہ جب ساقی نہیں اپنا تو مے اپنی نہ جام اپنا

محشر عنایتی




فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے

مجروح سلطانپوری




آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مرزا جواں بخت جہاں دار




مانیں جو میری بات مریدان بے ریا
دیں شیخ کو کفن تو ڈبو کر شراب میں

مرزا مائل دہلوی




تلخی تمہارے وعظ میں ہے واعظو مگر
دیکھو تو کس مزے کی ہے تلخی شراب میں

مرزا مائل دہلوی




شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ
زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر

مبارک عظیم آبادی