EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

قتیل شفائی




رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

قتیل شفائی




ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں

قتیل شفائی




ترک وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ
مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے

قتیل شفائی




یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

قتیل شفائی




سورج ستارے چاند مرے سات میں رہے
جب تک تمہارے ہات مرے ہات میں رہے

راحتؔ اندوری




اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحتؔ اندوری