EN हिंदी
خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے | شیح شیری
KHuddariyon ke KHun ko arzan na kar sake

غزل

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی

;

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خراب مے ترے غم تو بھلا دیے
لیکن غم حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاط روح کا ساماں نہ کر سکے