EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

محبت کا ان کو یقیں آ چلا ہے
حقیقت بنے جا رہے ہیں فسانے

مہیش چندر نقش




ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں
انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی

At the start, life prolonged,was my deep desire
now at the end, even for death, I do not aspire

ماہر القادری




شمع شب تاب ایک رات جلی
جلنے والے تمام عمر جلے

محمود ایاز




میں آ گیا ہوں وہاں تک تری تمنا میں
جہاں سے کوئی بھی امکان واپسی نہ رہے

محمود غزنی




عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین




ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور




ہم جانتے تو عشق نہ کرتے کسو کے ساتھ
لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ

had I known the outcome, to love would not aspire
would gladly turn this heart to dust with unfulfilled desire

میر تقی میر