EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے

منور رانا




انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفی زیدی




نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے

نقش لائل پوری




آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کاظمی




دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی