تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
منور رانا
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مصطفی زیدی
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
نقش لائل پوری
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
ناصر کاظمی