جو سن کر لگی زیر لب مسکرانے
یہ کیا کہہ دیا تھا کلی سے صبا نے
مرے شعر انمول لعل و گہر ہیں
لٹائے ترے غم نے کیا کیا خزانے
شفق کھل اٹھی چمپئی عارضوں پر
نکھارا ترے رنگ رخ کو حیا نے
رہا ہے وہی دل کا احساس الفت
بدلتے رہے لاکھ کروٹ زمانے
محبت کا ان کو یقیں آ چلا ہے
حقیقت بنے جا رہے ہیں فسانے
جھجھک کر کسی نے چرائیں جو نظریں
چراغ تمنا لگا جھلملانے
کبھی یہ بھی سوچا ہے اے ہنسنے والو
اگر پڑ گئے تم کو آنسو بہانے
وہ طوفان باد مخالف کہاں ہے
جو اٹھا تھا اے نقشؔ مجھ کو مٹانے
غزل
جو سن کر لگی زیر لب مسکرانے
مہیش چندر نقش