ترا خیال اگر جزو زندگی نہ رہے
جہاں میں میرے لیے کوئی دل کشی نہ رہے
میں آ گیا ہوں وہاں تک تری تمنا میں
جہاں سے کوئی بھی امکان واپسی نہ رہے
تو ٹھیک کہتا ہے اے دوست ٹھیک کہتا ہے
کہ ہم ہی قابل تجدید دوستی نہ رہے
حضور یاد ہے میدان حشر کا وعدہ
کہیں وہاں بھی مری آنکھ ڈھونڈھتی نہ رہے
مرا تو خیر ازل ہی سے غم مقدر ہے
تری نگاہ کی پہچان بے رخی نہ رہے
تو اس طرح سے لپٹ جا چراغ کی لو سے
کہ بعد مرگ یہاں تیری راکھ بھی نہ رہے
کسی کے ہجر کا موسم عذاب ہے غزنیؔ
کبھی کبھی تو میں کہتا ہوں زندگی نہ رہے
غزل
ترا خیال اگر جزو زندگی نہ رہے
محمود غزنی