EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات

جرأت قلندر بخش




ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے

کیف بھوپالی




تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے

کیف بھوپالی




جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

کیفی اعظمی




بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز




بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے

کلیم عاجز




دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ
وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے

کلیم عاجز