ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ
کلیم عاجز
عشق میں موت کا نام ہے زندگی
جس کو جینا ہو مرنا گوارا کرے
کلیم عاجز
کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
کلیم عاجز
میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا
نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے
کلیم عاجز
مرنا تو بہت سہل سی اک بات لگے ہے
جینا ہی محبت میں کرامات لگے ہے
کلیم عاجز
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
کلیم عاجز
وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا؟
تو اسی کو پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا؟
کلیم عاجز