تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے
ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے
کئی انقلاب آئے کئی خوش خرام گزرے
نہ اٹھی مگر قیامت تری کم سنی سے پہلے
مری صبح کے ستارے تجھے ڈھونڈتی ہیں آنکھیں
کہیں رات ڈس نہ جائے تری روشنی سے پہلے
غزل
تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے
کیف بھوپالی