بیاں جب کلیمؔ اپنی حالت کرے ہے
غزل کیا پڑھے ہے قیامت کرے ہے
بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے
کبھی شاعری اس کو کرنی نہ آتی
اسی بے وفا کی بدولت کرے ہے
چھری پر چھری کھائے جائے ہے کب سے
اور اب تک جئے ہے کرامت کرے ہے
کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھا بیٹھا شرارت کرے ہے
قبا ایک دن چاک اس کی بھی ہوگی
جنوں کب کسی کی رعایت کرے ہے
غزل
بیاں جب کلیمؔ اپنی حالت کرے ہے
کلیم عاجز