EN हिंदी
بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات | شیح شیری
bulbul sune na kyunki qafas mein chaman ki baat

غزل

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات

جرأت قلندر بخش

;

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
آوارۂ وطن کو لگے خوش وطن کی بات

مت پوچھ حال اپنے تو بیمار عشق کا
ہونے لگی اب اس کے تو گور و کفن کی بات

ہے موسم بہار میں با صد زباں خموش
غنچے نے کیا سنی تھی کسی کے دہن کی بات

عیش و طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو
مجھ غمزدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات

ناصح میں کیا کہوں کہ ہوا کس طرح سے چاک
دست جنوں سے پوچھو مرے پیرہن کی بات

تھا عاقل زمانہ پہ دیوانہ ہو گیا
جس شخص نے سنی مرے دیوانہ پن کی بات

سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیئے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہ کن کی بات

بزم چمن بھی اس سے خجل ہے بہار میں
کیا پوچھنے ہے یار تری انجمن کی بات

یارو میں کیا کہوں کہ جلا کس طرح پتنگ
پوچھو زبان شمع سے اس کی لگن کی بات

شاید اسی کا ذکر ہو ہر رہ گزر میں میں
سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات

وہ شے نہیں ہے ہم میں کہ جس سے ملے وہ یار
آتی ہے یوں تو ہم کو بھی ہر ایک فن کی بات

جرأتؔ خزاں کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ
اک رہ گئی زباں پہ گل و یاسمن کی بات