EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی




جی لگا رکھا ہے یوں تعبیر کے اوہام سے
زندگی کیا ہے میاں بس ایک گھر خوابوں کا ہے

عین تابش




ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

اعتبار ساجد




ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے

اختر انصاری




کوئی مآل محبت مجھے بتاؤ نہیں
میں خواب دیکھ رہا ہوں مجھے جگاؤ نہیں

اختر انصاری




میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے

اختر ہوشیارپوری




خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے

اختر رضا سلیمی