EN हिंदी
خواجہ شیاری | شیح شیری

خواجہ

126 شیر

آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا

فیصل عجمی




اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

فانی بدایونی




میرا ہر خواب تو بس خواب ہی جیسا نکلا
کیا کسی خواب کی تعبیر بھی ہو سکتی ہے

فرحت ندیم ہمایوں




دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

فاطمہ حسن




خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں

فاطمہ حسن




بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

غلام محمد قاصر




کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

غلام محمد قاصر