EN हिंदी
رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے | شیح شیری
ruKHsat-e-raqs bhi hai panw mein zanjir bhi hai

غزل

رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے

اختر ہوشیارپوری

;

رخصت رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
سر منظر مگر اک بولتی تصویر بھی ہے

میرے شانوں پہ فرشتوں کا بھی ہے بار گراں
اور مرے سامنے اک ملبے کی تعمیر بھی ہے

زائچہ اپنا جو دیکھا ہے تو سر یاد آیا
جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے

خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں ترے ہاتھ کی تحریر بھی ہے

جس سے ملنا تھا مقدر وہ دوبارہ نہ ملا
اور امکاں نہ تھا جس کا وہ عناں گیر بھی ہے

سر دیوار نوشتے بھی کئی دیکھتا ہوں
پس دیوار مگر حسرت تعمیر بھی ہے

میں یہ سمجھا تھا سلگتا ہوں فقط میں ہی یہاں
اب جو دیکھا تو یہ احساس ہمہ گیر بھی ہے

یوں نہ دیکھو کہ زمانہ متوجہ ہو جائے
کہ اس انداز نظر میں مری تشہیر بھی ہے

میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے