آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا
دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا
بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا
لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا
ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
غزل
آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
اعتبار ساجد